مصنف:محمدسعیدجاوید قسط:307آپریشن ڈویژن میں ایک اور بڑا شعبہ مکینیکل انجینئرنگ کا بھی ہوتا ہے، جو ریلوے سے متعلق ہر قسم کی تکنیکی ذمہ داریاں نباہتے ہیں جس

مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:307
آپریشن ڈویژن میں ایک اور بڑا شعبہ مکینیکل انجینئرنگ کا بھی ہوتا ہے، جو ریلوے سے متعلق ہر قسم کی تکنیکی ذمہ داریاں نباہتے ہیں جس میں الیکٹریکل انجینئرنگ کا شعبہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ریلوے کے محکمے اور سٹور کے لیے کی جانے والی جملہ خریداری بھی کرتے ہیں اور سٹور کا بہت بڑا محکمہ بھی ان کے پاس ہوتا ہے۔
آپریشن ڈویژن میں تیسرا اور بڑا شعبہ ٹریفک ڈیپارٹمنٹ کہلاتا ہے جہاں سے اس بات پر نظر رکھی جاتی ہے کہ ریلوے کی املاک اور گاڑیوں وغیرہ کو کس طرح مؤثر انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ماتحت ایک ذیلی شعبے میں، مسافروں کو دی جانے والی سہولتوں اور مراعات کے بارے میں بھی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ویسے یہ محکمہ مارکیٹنگ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس طرح کے کئی اور شعبہ جات بھی دیکھتا ہے۔
آپریشن ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت اور بھی چھوٹے چھوٹے بے شمار شعبہ جات ہوتے ہیں جیسے کہ ریلوے کے تمام کارکنوں کے لیے پرسانل ڈیپارٹمنٹ، ریلوے پولیس، منصوبہ بندی، شعبہئ مالیات، قانونی اور عدالتی موشگافیوں سے نپٹنے کے لیے شعبہئ قانون وغیرہ۔پاکستان کی والٹن ریلوے اکیڈمی بھی آپریشن ڈیپارٹمنٹ کے ماتحت ہی کام کرتی ہے اور مستقبل کی منصوبہ بندی بھی یہیں ہوتی ہے۔
پاکستان ریلوے کو8 مختلف انتظامی یونٹوں یعنی ڈویژنوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، جن میں کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، کوئٹہ، راولپنڈی اورسکھر ڈویژن تو فی الحال فعال ہیں جب کہ آٹھواں یعنی گوادر ڈویژن ابھی زیر تجویز ہے۔ جب گوادر کو ریلوے کے ذریعے سارے پاکستان سے ملا دیا جائے گا تو یہ ایک جداگانہ ڈویڑن بن جائے گا۔
مغل پورہ لاہور ورکشاپ کو بھی انتظامی ڈویژن قرار دے دیا گیا ہے گو اس کا ٹریفک ڈیپارٹمنٹ سے کچھ لینا دینا نہیں اس کے ذمے محض گاڑیوں، انجنوں اور ریلوے کی دوسری مشینری کی تیاری اور مرمت کا کام ہے۔
اب ہم محکمہ ریلوے کے ان چار اہم اور بڑے اداروں کا جائزہ لیتے ہیں جو بذاتِ خود اپنے اندر ایک جہان آباد کئے ہوئے ہیں تاہم ان کا براہ راست ریلوے کی آمد و رفت یا عمومی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لیے بہت کم لوگوں کو ان کے بارے میں علم ہوتا ہے۔
ریلوے ورکشاپ مغلپورہ
ابتدائی دنوں میں ہی لاہور ریلوے اسٹیشن کو مغربی اور شمال مغربی علاقوں میں بچھائے جانے والی لائنوں کا مرکزی صدر مقام چن لیا گیا تھا، اس لیے انگریز سرکار نے یہاں ایک بہت بڑا ریلوے ورکشاپ بنانے کا بھی سوچا جہاں روز مرہ کی بنیاد پر نہ صرف گاڑیوں اور سٹیم انجنوں کی اوورہالنگ اور مرمت وغیرہ کا کام کیا جا سکے بلکہ جہاں تک ممکن ہو ان کے بنیادی پرزوں کی ڈھلائی اور مکمل تیاری کا کام بھی یہیں ہو جائے۔ بیسیویں صدی کے آغاز یعنی 1912ء میں یہ ورکشاپ تیار ہوئی تو یہاں ہزاروں کاریگر اور مزدور بھرتی کئے گئے جو دن رات ریل کے پہیے کو حرکت پذیر رکھنے کے لیے کام کرتے رہے۔ اس وقت بلا شبہ اس علاقے کا سب سے بڑا صنعتی ادارہ تھا جو بہت وسیع و عرصے علاقے میں پھیلا ہوا تھا اور اپنے عروج کے وقت اس کی افرادی قوت 25 ہزار سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ آج کل بھی کم از کم8 ہزار ملازمین یہاں 3 شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ چھٹی کے وقت جب وہ ورکشاپ سے چیونٹیوں کی مانند باہر نکلتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے وہاں آس پاس کے علاقوں میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
