مصنف:رانا امیر احمد خاں قسط: 223 ماتھے پر ہلالی شکل کا جھومر اسلامی کلچر کی نمائندگی بھی کر رہا تھا اور ماتھے کی ہندو سرخ بندیا سے ہم آغوش بھی ہو

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط: 223
ماتھے پر ہلالی شکل کا جھومر اسلامی کلچر کی نمائندگی بھی کر رہا تھا اور ماتھے کی ہندو سرخ بندیا سے ہم آغوش بھی ہو رہا تھا۔ پورا ہال رقاصہ کی فنی مہارت پر جھوم اٹھا اور تالیوں سے گْونج اْٹھا۔ اس کے بعد سٹیج سیکرٹری نے پرفارمنگ آرٹ کے مشہور انسٹی ٹیوٹ کالا بھارتی سے تعلق رکھنے والی ڈانسرز کو دعوت دی اور بتایا کہ یہ نوجوان لڑکیاں گجراتی رقص پیش کریں گی۔ ان چاروں لڑکیوں نے خوبصورت ہم آہنگی کے ساتھ گجراتی لوک رقص کا سحر طاری کر دیا۔ بعدازاں انہی رقاص لڑکیوں نے مشہور کلاسیکل رقص کتھک کا مختصر مظاہرہ کیا۔ بتایا گیا کہ اس رقص کا تعلق گرو مہادیو ریشٹر سے ہے۔ آسمانی رنگ کی دلکش پوشاک میں ملبوس ایک نوجوان رقاصہ نے رقص میں ایسا انداز اپنایا کہ ہمیں یوں لگا جیسے کوئی خوبصورت تتلی سٹیج کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رقصاں اْڑتی پھر رہی ہو۔
انہی لمحات میں بار کے ایک عہدیدار نے راقم کے کان میں سرگوشی کی چنانچہ میں نے فوراً پاکستانی دوستوں کو بتایا کہ بار کی طرف سے ترتیب دئیے گئے عشائیے پر ہمارا انتظار ہو رہا ہے۔ ہم لوگ خاموشی سے اْٹھے اور ہال سے باہر نکل آئے۔ ڈنر سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ہوٹل پہنچے اور اپنے کمرے میں بھارتی ٹی وی آن کیا تو بھارتی ٹی وی چینل ”زی ٹی وی“ پر دہشت گردی کے حوالے سے ایک پروگرام جاری تھا۔ جس کا موضوع بھارتی کلچر کی گھاتیں اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بیانات تھے۔
ان بیانات میں اس بات کا اظہار کیا گیا تھا کہ طالبان کو پاکستان نے روس اور دیگر ممالک کے لیے تیار کیا تھا لیکن امریکہ کے ٹریڈ سنٹر پر نائن الیون والے حملے کے بعد ساری صورت حال تبدیل ہو گئی۔لہٰذا امریکی و یورپی دباؤ کے تحت پاکستان کو طالبان کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا پڑا جس کے ردِعمل میں پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ٹیلی ویژن پر صدر زرداری کے مسکراتے چہرے کی تصویر ٹھہرا کر ان کے بیانات کے ٹکڑے دکھائے گئے اور پھر صورتحال پر تجزیہ کار سابق بھارتی وزیر دفاع بھرت ورما کو تبصرہ کی دعوت دی گئی۔ اینکر پرسن بھرت ورما سے سوال کرتا ہے۔ ”زرداری کے اس قبولی بیان کے بعد پاک، بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات پر آپ کی کیا رائے ہے“ ”بالکل نہیں …زرداری کے قبولی بیان کی کوئی اہمیت نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کبھی جمہوری حکومت قائم ہی نہیں ہوئی۔ کبھی یہ ادارہ سامنے آ کر حکومت سنبھال لیتا ہے اور کبھی پس پردہ رہ کر کام کرتا ہے۔ بطور صدر برسر اقتدار آنے کے بعد زرداری نے جتنے بیان تبدیل کئے ہیں وہ فوج کے دباؤ پر کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت 2009 ء میں بھی پاکستان پر فوج اور آئی ایس آئی کی حکومت ہے۔ پاکستان کے سول صدر اور وزیر اعظم محض دکھاوے کے ہوتے ہیں۔ اینکر پرسن کے اس سوال کے جواب میں کہ بھارت کو دہشت گردی سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ جواب میں بھرت ورما نے اپنا فلسفہ بیان کرتے ہوئے کہا ”بھارت کو دہشت گردی اور دوسرے حوالوں سے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جو مسائل درپیش ہیں وہ سب خود بھارت کی کمزور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ بھارت خطے کی بڑی طاقت ہے اور اس کے اردگرد ممالک کمتر حیثیت کے حامل ہیں۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ سپرطاقت بنے، اپنی نام نہاد امن پالیسی اور صبر کرو کی روش چھوڑتے ہوئے اپنے پاؤں پر تن کر کھڑا ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ تمام چھوٹے ہمسایہ ممالک اس کے زیر اثر نہ آ جائیں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا، بھارت کو ہمسایہ ممالک اور پاکستان کی طرف سے دہشت گردی اور امن و آشتی کے مسائل کا سامنا رہے گا“۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
